Tum Noor E Dil Ho by S Merwa Mirza Episode 8
Tum Noor E Dil Ho by S Merwa Mirza Episode 8
Tum Noor E Dil Ho by S Merwa Mirza Episode 8
"کیا ہے، سر پر کیوں کھڑی ہو"
مسلسل جائشہ کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ اس ننھی جان کو جھاڑ گیا جس پر جائشہ نے بمشکل رونے کو بریک لگائی۔
"وہ میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے"
بڑی مشکل سے زبان سے لفظ نکلے، شمائل نے موبائل سے نظریں اٹھا کر جائشہ پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالی جو واقعی شدید رنجیدہ تھی۔
"وہ کیوں ہو رہا ہے، ابھی تو کھانا کھایا ہے"
شمائل نے حیرت سے اپنی عقل کے گھوڑے دوڑا کر جواب تراشا جس پر جائشہ مزید بوجھل قدم اٹھائے قریب ہوئی اور ناجانے کیا ارشاد کرنے کی تیاری پکڑی۔
"وہ ناں کھانے والا درد نہئں ہے، بورئیت والا ہے۔ پلیز کہیں لے جائیں ورنہ بور ہو کر میں نے یہیں فوت ہو جانا"
جائشہ کی واقعی بورئیت سے جان نکل رہی تھی اور وہ بچوں کی طرح آکر اس سے فرمائش کرتی شمائل کو بھی الگ سی لگی۔
اسکا وہ باربی ڈال والا سلیپنگ شرٹ اور ٹراوز، کندھے تک ڈھیلی سی پونی میں قید بال اور چہرے پر جلے بجھے تاثر ، وہ اسے اب دیکھتا کم کھوجتا زیادہ تھا۔
نظریں بھٹک رہی تھیں اور شمائل فورا سے بیشتر نظر ہٹا کر ٹیک چھوڑے سیدھا ہوئے بیٹھا جیسے بس چلنے کو تیار ہو۔
"کیا واقعی تم فوت ہو جاو گی"
شمائل نے محظوظ ہوتے چہرہ اٹھا کر سوال کیا تو جائشہ نے ترکی بہ ترکی اثبات میں سر کو بجلی کی رفتار سے کئی بار جنبش دی۔
"سچی میں نے یہیں تنہائی اور بورئیت سے مر جانا پھر آپ اکیلے پاکستان جاتے اچھے لگیں گے کیا۔ لوگ تو ہنی مون پر دو سے تین ہو کر واپس جاتے اور۔۔۔۔۔"
گہرا سناٹا پھٹ کر دونوں کو پتھرا گیا اور جائشہ تو اپنے منہ سے ایسی آمد پر واقعی مجسمہ بن گئی، رونگٹے تو کچھ لمحے کو دونوں کے کھڑے ہوئے۔
دل چاہا زمین پھٹ جائے اور وہ اپنے اس کارنامے پر وہیں گڑھ جائے۔ یا پھر کہیں سے کوئی طلسمی طاقت آجائے کے جائشہ خود کو غائب کر لے۔
شمائل تو حیران و پریشان اس بات پر صدمے میں تھا مگر جائشہ کی سائز سے بڑی آنکھیں اور کھلا منہ اسکے فوری مڑنے پر اوجھل ہوا اور وہ آنکھیں سختی سے بند کیے خود پر اب کوسنے والی تھی۔
"دل کی بچی یہ کیا بونگی مار دی، افف تیری زبان کو لگام نہیں۔ یا اللہ آج بچا لیں۔ چل اب نکل جائشہ ورنہ یہیں واقعی دفن ہو جائے گی خود اپنے ہاتھوں"
جائشہ شدید کوفت زدہ ہو کر مڑ کر کھڑی تھی اور شمائل صاحب اب حیرت سے نکل کر اس بونگی بات کا مفہوم سمجھ کر نظریں جھکائے بھینی بھینی ہنسنی میں تھے مگر جائشہ تو گدھے کے سر سے سینگ کی طرح اس سپیڈ سے باہر بھاگی کہ باہر سٹنگ ایریا جا کر دم لیا اور دونوں ہاتھ منہ پر رکھے دیوار سے جا لگی۔
وہ اسکے یوں بھاگنے پر مسکراتا ہوا پھر سے نیم دراز ہو کر فون سے لگ گیا جبکہ جائشہ ضرور سرخ ہو کر اب اپنا سر کسی مضبوط دیوار سے دے مارنے والی تھی۔
___
Kitab Nagri start a journey for all social media writers to publish their writes.Welcome To All Writers,Test your writing abilities.
ان سب ویب،بلاگ،یوٹیوب چینل اور ایپ والوں کو تنبیہ کی جاتی ہےکہ اس ناول کو چوری کر کے پوسٹ کرنے سے باز رہیں ورنہ ادارہ کتاب نگری اور رائیٹرز ان کے خلاف ہر طرح کی قانونی کاروائی کرنے کے مجاز ہونگے۔
Komentar
Posting Komentar